Introduction
Me a love mountain
Waiting since long
A certainty hanging loose
Of the one who may come?
For sure he will, and he will
He came…He saw
And sliced me with his razor eyes
He paved a passageway through
Then within me
A mountain of love
With a way…
River bound
Poetry Akhtar Shumaar
Translated by Imtiaz Ahmed-Taj
If I were to be……
If I were to be!
A room, a room in which
You live within as if within me
And me there to willfully let myself
Be lost in the eternal bliss of
Being with you
If I were to be! A mirror
Where your image-revealed
With certain truth of visibility
And me confronting you
Can touch the feel of you
In the labyrinths of
Your heavenly being, so exposed
So close
Lost and wonder struck, forever!
If I were to be! Your way-usual
Trodden with my daily watch
Where on each step
Your touch of trod
Turns a man insane
If I were to be! A fragrance stealing
Your breaths a place within
Like a shadowing companion-watch
So long so eternal
Like a chase of blood in vessels each
But only granted…
If were to be!
Poetry Akhtar Shumaar
Translated by Imtiaz Ahmed-Taj
Sunday, August 3, 2008
Friday, August 1, 2008
Cairo ke shaboroz
قاہرہ کے شب و روز
۱۴ مارچ کو میں نے لاہور سے قاہرہ کے لیے رخت سفر باندھا تھا ۔ تین سال کے لیے جامعہ عین شمس میں اردوچیرئز پر تعینا تی بلا شبہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ۔ الحمد اللہ میں نے اپنی یو نیو ر سٹی جوا ئن کر لی ہے ۔ جب ہما را جہا ز قا ہر ہ ائیر پو رٹ پر لینڈ کر رہا تھا تو قا ہرہ کی بلند و با لا عما را ت دکھا ئی دے رہی تھی اور مجھے وہ منظر دیکھ کر قدر ے ما یو سی ہو ئی ۔ کہ سیمنٹ ر نگ کی یہ عما را ت شہر کو عما رات کا جنگل بنا ئے ہو ئے تھی۔ شہر کا ہے کا یہ تو واقعتا او نچی اونچی عما رتو ں کا جنگل ہے اگرنیل کو درمیا ن میں سے نکا ل دیا جا ئے تو کو ئی شخص ایک دن بھی قاہرہ میں قیام نہ کر سکے برحال اب ہمیں یہی رہنا ہے یہاں آ کر لاہور کا رش ’دھواں’ سڑکیں زیادہ اچھی لگنے لگی ۔ ٹرفیک کےمسائل ہمارے ہاں بھی ہیں مگر سڑکیں زیادہ کشادہ اور صاف ستھری ہیں۔یہاں پلوں کا جال ضرور بچھا ہوا ہے مگر سڑکوں پر ٹریفک بہت ہی زیادہ ہے۔ایک بات ضرور ہے کہ یہاں قطار کا ہمیشہ دھیا ن ر کھا جاتا ہے ۔ بیشتر سڑکیں ون وے ہیں۔ ہم قاہرہ کے (بقول شخصے) پوش علاقے ذمالک میںرہائش پذیر ہیں۔ ذمالک میں کئ ممالک کے سفارت خانے اور سفیروں کی رہائش گاہیں بھی ہیںنیل کے کنارہ پرواقع ایک بلند عمارت کی13 ویں منزل پر ہمارا قیام ہےاور گھر کی تمام کھڑکیوں سے نیل کا نظارہ دیکھا جا سکتا ہے دریائے نیل میں ہر وقت چھوٹی بڑی کشتیاں چلتی رہتی ہیں۔رات کو دریائےنیل کے نظارے اور بھی خوبصورت اور دیدنی ہو جاتے ہیں۔کیونکہ یہاں کی رات ٹھنڈی اور زیادہ روشن ہے۔ گرمی معمولی ہےوہ بھی دن کے وقت’ رات کو اس قدر تیز ہوائیںبھی چلتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔شاعری میں ہوا سیٹیاںبجا تی ہے مگر کا نوں سے ہوائوں کی سٹیا ں اور سر گوشیاں پہلی بار ملاحظہ کیں۔ ذمالک کو یہاں کا پوش علاقہ قرار دیا جاتا ہےاور یہ مہنگا ترین علاقہ بھی ہےکیوں کہ یہاں سیاحوں کا ڈیرہ بھی رہتا ہے۔ نیل کے کنارے رہائشی فلیٹ اور ہوٹلوں کےکنارےہرچیزمہنگی ہے۔ ذمالک مصر کی معروف گلوکارہ ام کلثوم کا علاقہ بھی ہے۔ ایک چوک میں ام کلثوم کا مجسمہ بھی لگا ہوا ہے اور قریب ہی اس کے نام پرایک ہوٹل بھی ہےسبھی مصری اس عظیم فنکارہ کو اپنا اثاثہ اورفخر قرار دیتے ہیں اور مرحومہ کے گیت آج بھی شو ق سے سنے جاتے ہیں۔
ہمارے گھر کے قریب میں امریکی سفیر اور اقوام متحدہ کے ایک سابقہ سفارتکار بطروس غالی کا گھر بھی ہےاور ڈاکٹر زاہد منیر تو گویا بطروس غالی کے پڑوس ہیں۔زاہد منیر جامعہ اردو چیر پرتعینات ہیں۔ وہ مجھ سےدو ماہ قبل تشریف لائے۔ائر پورٹ پر سفارت خانے کے افسران کے ساتھ زاہد منیر بھی تھے۔انھوں نے ہماری خصوصی مدد کی گھر کی تلاش سے لے کر یہاں کے بازاروں اور راستوں کے بارے میں ہماری رہنمائی کی ۔انھوں نےزما لک کا تعر ف کریا اور بتا یا کہ یہی ڈیفینس اور گلبرک ہے اور ہم اس پوش علاقہ پر اکثر دیر تک گھومتے رہتے ہیں ۔
ذمالک میں دیگر شہر کی طرح سڑکوں کےارد گردگاڑیاںپارک ہوتی ہیں جس کے سبب سڑکوں پر زیا دہ بھیڑ دکھا ئی دیتی ہے۔ آنے جانےکے لئےبسیں ویگنیں اورریل گاڑی بھی موجود ہے۔مگر ہم تو ٹیکسی استعمال کرتے ہیںوقت بچا نے کے لیے’ اورٹیکسی ۱۵ بیس روپے میں آسانی سے دستیاب ہوتی ہے۔یہاں کہ د کانداراوربیشتر ٹیکسی ڈرائیورعجیب مزاج رکھتےہیںبھائو کرنے پر آتےہیںتو قیمت بہت زیادہ بتاتے ہیں اور پھر وہی چیز
سستے داموں میں بیچ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے پٹھان بھائی بہت یاد آئے وہ پٹھان جو گلی گلی سامان اٹھائے پھرتے ہیں اور ہزاروں کی قیمت بتا کرسو پچاس میں دے ڈالتے ہیں۔
پاکستانی بہت کم تعداد میں ہیں ۔ زیادہ طالب علم دینی تعلیم کے لئے آئے ہوئےہیںلیکن یونیورسٹیوں میںنمایاں پوزیشن حاصل کر تے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے دو پاکستانی طلبہ نے
پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔ سفارت خانے کا پاکستان انٹر نیثنل سکول ہر حوالے سے ایک ممتاز ادارہ بن چکاہےدیگرممالک میں موجود پاکستانی سکولوں میں سے اسے نمبر ون قرار دیاجاتا ہے پرنسپل ایک بہت ہی نفیس شخصیت احمد شاہ بخاری ہیںجن کا تعلق پشا ور سے ہے ۔انگر یز ی کے استا د میں امتیا ز احمد تا ج نما یا ں ہیں ۔جو لا ہو ر سے تعلق رکھتے ہیں۔
بحثیت استا د عا لمی سطح پر پہچانےجاتے ہیں ۔ افسا نے بھی لکھتے ہیں ان دنوںناول لکھنے میں مصرو ف ہیں۔ حافظ منیر احمد کا تعلق بھیرہ کی عظیم در سگا ہ سے ہے ان کا ایم فل اور پی ایچ ڈی کا مقالہ یہا ں کے بڑ ے پبلشر شا ئع کر رہے ہیں۔ حا فظ منیر کے ارد گرد طلبہ کا ہجو م رہتا ہے ۔ امجد عز یز کا تعلق جہلم سے ہے جنہو ں نے حال ہی میں مو لا نہ رو می کی
مصنوی کے حو لے سے ایم فل کا مقا لہ لکھ کر ڈگر ی حاصل کی ہے ۔ سفا رت خا نے میں سا را عملہ بے حد محنتی اور محب وطن دکھا ئی دیا۔۲۳ ما رچ کے پروگرام میں سا رے پا کستا نیو ں نے شرکت کی تھی ۔ سفیر عا رف ایوب صاحب الوداع ہو نے وا لے ہیں وہ کسی دوسر ے ملک میں تعینا ت ہو ئے ہیں ۔ایچ او سی عبدلجبا ر میمن انسا ن دو ست آفیسرہیں ’ ہم نے سبھی پا کستا نیو ں سےان کےبارے میں اچھے کلما ت سنے ہیں اور ان سے مل کر احسا س ہو ا کہ ایسے ہی افسرا ن سفا رت خا نوں میں تعینا ت ہو نے چا ہیں جو حقیقی معنو ں میں پا کستا نیوں کے لیے مد گا ر ثا بت ہو ں ۔ ان کے سا تھ ایک اچھی ٹیم مو جو د ہےکرنل قیصرعباس ’ڈاکٹر نجیب احمد’ احمد نسیم و ڑائچ یہ سبھی قو نسلر اپنے اپنے شعبو ں میں وطن عزیز کی بہتر ین خد مت میں مصرو ف ہیں .
بضا ہر دیکھنے میں قا ہرہ لا ہو ر سے زیا دہ مختلف نہیں
( خصوصا رش دھو یں اور صفا ئی کے انتظا ما ت کے حو الے سے ) یہا ں ہو ٹلو ں پرویسا ہی رش ہے لیکن آپ کو ہو ٹلوں پر ہر میز پر حقہ دکھا ئی دے گا جسے یہا ں شیشہ کہا جا تا ہے۔ شا م کو قہواہ اور شیشہ پینے وا لو ں کا ایک ہجو م ہو تا ہے ۔ مہنگا ئی زیا دہ ہے ۔ آٹا پا کستا ن میں ۲۰ کلو تین چا ر سو میں مل جا تا ہے یہا ں ہم نے ۲۵ کلو کا تھیلا تقر یبا ۱۰۰ رو پے (مصر ی )میں منگو ایا ہے جو پا کسانی ۱۲۰۰ رو پے بنتے ہیں ۔بہت سی معلو ما ت اور مشاہدا ت انشاء اللہ آپ تک پہنچتی رہیں گی ۔ فی الوقت اجا زت ۔ پا کستا ن کی ہوائوں اور لا ہو ر کی فضا ئو ں کو سلا م ۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۴ مارچ کو میں نے لاہور سے قاہرہ کے لیے رخت سفر باندھا تھا ۔ تین سال کے لیے جامعہ عین شمس میں اردوچیرئز پر تعینا تی بلا شبہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ۔ الحمد اللہ میں نے اپنی یو نیو ر سٹی جوا ئن کر لی ہے ۔ جب ہما را جہا ز قا ہر ہ ائیر پو رٹ پر لینڈ کر رہا تھا تو قا ہرہ کی بلند و با لا عما را ت دکھا ئی دے رہی تھی اور مجھے وہ منظر دیکھ کر قدر ے ما یو سی ہو ئی ۔ کہ سیمنٹ ر نگ کی یہ عما را ت شہر کو عما رات کا جنگل بنا ئے ہو ئے تھی۔ شہر کا ہے کا یہ تو واقعتا او نچی اونچی عما رتو ں کا جنگل ہے اگرنیل کو درمیا ن میں سے نکا ل دیا جا ئے تو کو ئی شخص ایک دن بھی قاہرہ میں قیام نہ کر سکے برحال اب ہمیں یہی رہنا ہے یہاں آ کر لاہور کا رش ’دھواں’ سڑکیں زیادہ اچھی لگنے لگی ۔ ٹرفیک کےمسائل ہمارے ہاں بھی ہیں مگر سڑکیں زیادہ کشادہ اور صاف ستھری ہیں۔یہاں پلوں کا جال ضرور بچھا ہوا ہے مگر سڑکوں پر ٹریفک بہت ہی زیادہ ہے۔ایک بات ضرور ہے کہ یہاں قطار کا ہمیشہ دھیا ن ر کھا جاتا ہے ۔ بیشتر سڑکیں ون وے ہیں۔ ہم قاہرہ کے (بقول شخصے) پوش علاقے ذمالک میںرہائش پذیر ہیں۔ ذمالک میں کئ ممالک کے سفارت خانے اور سفیروں کی رہائش گاہیں بھی ہیںنیل کے کنارہ پرواقع ایک بلند عمارت کی13 ویں منزل پر ہمارا قیام ہےاور گھر کی تمام کھڑکیوں سے نیل کا نظارہ دیکھا جا سکتا ہے دریائے نیل میں ہر وقت چھوٹی بڑی کشتیاں چلتی رہتی ہیں۔رات کو دریائےنیل کے نظارے اور بھی خوبصورت اور دیدنی ہو جاتے ہیں۔کیونکہ یہاں کی رات ٹھنڈی اور زیادہ روشن ہے۔ گرمی معمولی ہےوہ بھی دن کے وقت’ رات کو اس قدر تیز ہوائیںبھی چلتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔شاعری میں ہوا سیٹیاںبجا تی ہے مگر کا نوں سے ہوائوں کی سٹیا ں اور سر گوشیاں پہلی بار ملاحظہ کیں۔ ذمالک کو یہاں کا پوش علاقہ قرار دیا جاتا ہےاور یہ مہنگا ترین علاقہ بھی ہےکیوں کہ یہاں سیاحوں کا ڈیرہ بھی رہتا ہے۔ نیل کے کنارے رہائشی فلیٹ اور ہوٹلوں کےکنارےہرچیزمہنگی ہے۔ ذمالک مصر کی معروف گلوکارہ ام کلثوم کا علاقہ بھی ہے۔ ایک چوک میں ام کلثوم کا مجسمہ بھی لگا ہوا ہے اور قریب ہی اس کے نام پرایک ہوٹل بھی ہےسبھی مصری اس عظیم فنکارہ کو اپنا اثاثہ اورفخر قرار دیتے ہیں اور مرحومہ کے گیت آج بھی شو ق سے سنے جاتے ہیں۔
ہمارے گھر کے قریب میں امریکی سفیر اور اقوام متحدہ کے ایک سابقہ سفارتکار بطروس غالی کا گھر بھی ہےاور ڈاکٹر زاہد منیر تو گویا بطروس غالی کے پڑوس ہیں۔زاہد منیر جامعہ اردو چیر پرتعینات ہیں۔ وہ مجھ سےدو ماہ قبل تشریف لائے۔ائر پورٹ پر سفارت خانے کے افسران کے ساتھ زاہد منیر بھی تھے۔انھوں نے ہماری خصوصی مدد کی گھر کی تلاش سے لے کر یہاں کے بازاروں اور راستوں کے بارے میں ہماری رہنمائی کی ۔انھوں نےزما لک کا تعر ف کریا اور بتا یا کہ یہی ڈیفینس اور گلبرک ہے اور ہم اس پوش علاقہ پر اکثر دیر تک گھومتے رہتے ہیں ۔
ذمالک میں دیگر شہر کی طرح سڑکوں کےارد گردگاڑیاںپارک ہوتی ہیں جس کے سبب سڑکوں پر زیا دہ بھیڑ دکھا ئی دیتی ہے۔ آنے جانےکے لئےبسیں ویگنیں اورریل گاڑی بھی موجود ہے۔مگر ہم تو ٹیکسی استعمال کرتے ہیںوقت بچا نے کے لیے’ اورٹیکسی ۱۵ بیس روپے میں آسانی سے دستیاب ہوتی ہے۔یہاں کہ د کانداراوربیشتر ٹیکسی ڈرائیورعجیب مزاج رکھتےہیںبھائو کرنے پر آتےہیںتو قیمت بہت زیادہ بتاتے ہیں اور پھر وہی چیز
سستے داموں میں بیچ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے پٹھان بھائی بہت یاد آئے وہ پٹھان جو گلی گلی سامان اٹھائے پھرتے ہیں اور ہزاروں کی قیمت بتا کرسو پچاس میں دے ڈالتے ہیں۔
پاکستانی بہت کم تعداد میں ہیں ۔ زیادہ طالب علم دینی تعلیم کے لئے آئے ہوئےہیںلیکن یونیورسٹیوں میںنمایاں پوزیشن حاصل کر تے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے دو پاکستانی طلبہ نے
پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔ سفارت خانے کا پاکستان انٹر نیثنل سکول ہر حوالے سے ایک ممتاز ادارہ بن چکاہےدیگرممالک میں موجود پاکستانی سکولوں میں سے اسے نمبر ون قرار دیاجاتا ہے پرنسپل ایک بہت ہی نفیس شخصیت احمد شاہ بخاری ہیںجن کا تعلق پشا ور سے ہے ۔انگر یز ی کے استا د میں امتیا ز احمد تا ج نما یا ں ہیں ۔جو لا ہو ر سے تعلق رکھتے ہیں۔
بحثیت استا د عا لمی سطح پر پہچانےجاتے ہیں ۔ افسا نے بھی لکھتے ہیں ان دنوںناول لکھنے میں مصرو ف ہیں۔ حافظ منیر احمد کا تعلق بھیرہ کی عظیم در سگا ہ سے ہے ان کا ایم فل اور پی ایچ ڈی کا مقالہ یہا ں کے بڑ ے پبلشر شا ئع کر رہے ہیں۔ حا فظ منیر کے ارد گرد طلبہ کا ہجو م رہتا ہے ۔ امجد عز یز کا تعلق جہلم سے ہے جنہو ں نے حال ہی میں مو لا نہ رو می کی
مصنوی کے حو لے سے ایم فل کا مقا لہ لکھ کر ڈگر ی حاصل کی ہے ۔ سفا رت خا نے میں سا را عملہ بے حد محنتی اور محب وطن دکھا ئی دیا۔۲۳ ما رچ کے پروگرام میں سا رے پا کستا نیو ں نے شرکت کی تھی ۔ سفیر عا رف ایوب صاحب الوداع ہو نے وا لے ہیں وہ کسی دوسر ے ملک میں تعینا ت ہو ئے ہیں ۔ایچ او سی عبدلجبا ر میمن انسا ن دو ست آفیسرہیں ’ ہم نے سبھی پا کستا نیو ں سےان کےبارے میں اچھے کلما ت سنے ہیں اور ان سے مل کر احسا س ہو ا کہ ایسے ہی افسرا ن سفا رت خا نوں میں تعینا ت ہو نے چا ہیں جو حقیقی معنو ں میں پا کستا نیوں کے لیے مد گا ر ثا بت ہو ں ۔ ان کے سا تھ ایک اچھی ٹیم مو جو د ہےکرنل قیصرعباس ’ڈاکٹر نجیب احمد’ احمد نسیم و ڑائچ یہ سبھی قو نسلر اپنے اپنے شعبو ں میں وطن عزیز کی بہتر ین خد مت میں مصرو ف ہیں .
بضا ہر دیکھنے میں قا ہرہ لا ہو ر سے زیا دہ مختلف نہیں
( خصوصا رش دھو یں اور صفا ئی کے انتظا ما ت کے حو الے سے ) یہا ں ہو ٹلو ں پرویسا ہی رش ہے لیکن آپ کو ہو ٹلوں پر ہر میز پر حقہ دکھا ئی دے گا جسے یہا ں شیشہ کہا جا تا ہے۔ شا م کو قہواہ اور شیشہ پینے وا لو ں کا ایک ہجو م ہو تا ہے ۔ مہنگا ئی زیا دہ ہے ۔ آٹا پا کستا ن میں ۲۰ کلو تین چا ر سو میں مل جا تا ہے یہا ں ہم نے ۲۵ کلو کا تھیلا تقر یبا ۱۰۰ رو پے (مصر ی )میں منگو ایا ہے جو پا کسانی ۱۲۰۰ رو پے بنتے ہیں ۔بہت سی معلو ما ت اور مشاہدا ت انشاء اللہ آپ تک پہنچتی رہیں گی ۔ فی الوقت اجا زت ۔ پا کستا ن کی ہوائوں اور لا ہو ر کی فضا ئو ں کو سلا م ۔۔۔۔۔۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)