Wednesday, October 8, 2008

Is It About me???

My dear homeland reckons me as Akhtar Shumaar (The Star Counter), so it is my name in literary and cultural circles here in Pakistan. These days I am appointed as visiting professor (Scholar) for the chair of Urdu Language & Literature and Pakistan Studies at the Ain Shams University Cairo in Egypt. Prior to this I have been working as Head of Urdu Department at Sir Forman Christian College (A Chartered University) at Lahore, Pakistan.
My teaching career at various colleges in Lahore; Government College, Government Dyal Singh College, Government Degree College Shahdara and Government Islamia Degree College Qasur is the wealth of my teaching career which wrought forth my present responsibilities to work at a very prestigious university of Egypt-Ain Shams University Cairo.
Those who are deeply involved in Urdu literature know that I have published my work in poetry, criticism and research coupled with a whole repertoire of academic books. I am a regular contributor to a leading Urdu language daily news paper (Nawa e waqt). I have also contributed columns in Daily Express, Daily Khabrain, Daily Pakistan, and weekly Family Magazine, whereas I have also worked as Editor literary edition. I also served as Secretary General of Halqa Arbab-a- Zouk; which has its literary and historical tradition of outstanding record
I have the honor to publish the first literary newspaper of Pakistan ‘Bjang Amad.’ I have participated in poetry renditions and conferences held in India, America, UK, and Europe and Gulf region to promote Urdu & Punjabi Languages. I have written songs and dramas for radio, and TV, and have appeared several times on TV as guest speaker in various literary programs.
But regardless of all these facts and figures mentioned above; which are of secondary importance to my intitutive-being, I am probing deep into my identity- a question of self realization- from where I belong to…where am I heading to…? Just like these enigmatic and celestially-hidden secrets of the universe, I find myself equally unpack-able; my ‘self’ …bounces beyond my intitutive bouts…a constant struggle to know thyself.
I wish I were born in times when secrets of the world were revealed in the form of preaching and teachings of the Holy Prophet Muhammad (PBUH). I wish I were born to die in those times, when Holy Prophet Muhammad (PBUH) was spreading the message of Islam. I wish if it could be a possibility to live at a mountain top… away from this entire crisscross of worldly material life; which is, actually not inconformity with my creative mind…to give me a chance to stop counting the stars and be part of them like a mystery which unfolds thousand secrets …but only to those who don’t count them but live in them. I wish I were as clear as crystal, and could hear and see each un-noticed particle of this being of universe. Is it my journey or an adventure, or an exploration of myself? I wish explorers shouldn’t have adventures and any struggle shouldn’t go waste. My frantic drives in poetry and pendulum efforts in story writing, column writing and back and forth are not merely harping on the same tunes but within these fiddling I hope a final word… a word, which can give one a reason to die with a sense of accomplishment or in other words to live in the memories of my readers-just like blood which circulates in our body with one single color but thousands of lives who carry them with every new aroma of their identified beings.

Sunday, August 3, 2008

Poetry

Introduction


Me a love mountain

Waiting since long

A certainty hanging loose

Of the one who may come?

For sure he will, and he will

He came…He saw

And sliced me with his razor eyes

He paved a passageway through

Then within me

A mountain of love

With a way…

River bound

Poetry Akhtar Shumaar
Translated by Imtiaz Ahmed-Taj


If I were to be……


If I were to be!

A room, a room in which

You live within as if within me

And me there to willfully let myself

Be lost in the eternal bliss of

Being with you



If I were to be! A mirror

Where your image-revealed

With certain truth of visibility

And me confronting you

Can touch the feel of you

In the labyrinths of

Your heavenly being, so exposed

So close

Lost and wonder struck, forever!



If I were to be! Your way-usual

Trodden with my daily watch

Where on each step

Your touch of trod

Turns a man insane



If I were to be! A fragrance stealing

Your breaths a place within

Like a shadowing companion-watch

So long so eternal

Like a chase of blood in vessels each

But only granted…

If were to be!



Poetry Akhtar Shumaar
Translated by Imtiaz Ahmed-Taj

Friday, August 1, 2008

Cairo ke shaboroz

قاہرہ کے شب و روز
۱۴ مارچ کو میں نے لاہور سے قاہرہ کے لیے رخت سفر باندھا تھا ۔ تین سال کے لیے جامعہ عین شمس میں اردوچیرئز پر تعینا تی بلا شبہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ۔ الحمد اللہ میں نے اپنی یو نیو ر سٹی جوا ئن کر لی ہے ۔ جب ہما را جہا ز قا ہر ہ ائیر پو رٹ پر لینڈ کر رہا تھا تو قا ہرہ کی بلند و با لا عما را ت دکھا ئی دے رہی تھی اور مجھے وہ منظر دیکھ کر قدر ے ما یو سی ہو ئی ۔ کہ سیمنٹ ر نگ کی یہ عما را ت شہر کو عما رات کا جنگل بنا ئے ہو ئے تھی۔ شہر کا ہے کا یہ تو واقعتا او نچی اونچی عما رتو ں کا جنگل ہے اگرنیل کو درمیا ن میں سے نکا ل دیا جا ئے تو کو ئی شخص ایک دن بھی قاہرہ میں قیام نہ کر سکے برحال اب ہمیں یہی رہنا ہے یہاں آ کر لاہور کا رش ’دھواں’ سڑکیں زیادہ اچھی لگنے لگی ۔ ٹرفیک کےمسائل ہمارے ہاں بھی ہیں مگر سڑکیں زیادہ کشادہ اور صاف ستھری ہیں۔یہاں پلوں کا جال ضرور بچھا ہوا ہے مگر سڑکوں پر ٹریفک بہت ہی زیادہ ہے۔ایک بات ضرور ہے کہ یہاں قطار کا ہمیشہ دھیا ن ر کھا جاتا ہے ۔ بیشتر سڑکیں ون وے ہیں۔ ہم قاہرہ کے (بقول شخصے) پوش علاقے ذمالک میںرہائش پذیر ہیں۔ ذمالک میں کئ ممالک کے سفارت خانے اور سفیروں کی رہائش گاہیں بھی ہیںنیل کے کنارہ پرواقع ایک بلند عمارت کی13 ویں منزل پر ہمارا قیام ہےاور گھر کی تمام کھڑکیوں سے نیل کا نظارہ دیکھا جا سکتا ہے دریائے نیل میں ہر وقت چھوٹی بڑی کشتیاں چلتی رہتی ہیں۔رات کو دریائےنیل کے نظارے اور بھی خوبصورت اور دیدنی ہو جاتے ہیں۔کیونکہ یہاں کی رات ٹھنڈی اور زیادہ روشن ہے۔ گرمی معمولی ہےوہ بھی دن کے وقت’ رات کو اس قدر تیز ہوائیںبھی چلتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔شاعری میں ہوا سیٹیاںبجا تی ہے مگر کا نوں سے ہوائوں کی سٹیا ں اور سر گوشیاں پہلی بار ملاحظہ کیں۔ ذمالک کو یہاں کا پوش علاقہ قرار دیا جاتا ہےاور یہ مہنگا ترین علاقہ بھی ہےکیوں کہ یہاں سیاحوں کا ڈیرہ بھی رہتا ہے۔ نیل کے کنارے رہائشی فلیٹ اور ہوٹلوں کےکنارےہرچیزمہنگی ہے۔ ذمالک مصر کی معروف گلوکارہ ام کلثوم کا علاقہ بھی ہے۔ ایک چوک میں ام کلثوم کا مجسمہ بھی لگا ہوا ہے اور قریب ہی اس کے نام پرایک ہوٹل بھی ہےسبھی مصری اس عظیم فنکارہ کو اپنا اثاثہ اورفخر قرار دیتے ہیں اور مرحومہ کے گیت آج بھی شو ق سے سنے جاتے ہیں۔
ہمارے گھر کے قریب میں امریکی سفیر اور اقوام متحدہ کے ایک سابقہ سفارتکار بطروس غالی کا گھر بھی ہےاور ڈاکٹر زاہد منیر تو گویا بطروس غالی کے پڑوس ہیں۔زاہد منیر جامعہ اردو چیر پرتعینات ہیں۔ وہ مجھ سےدو ماہ قبل تشریف لائے۔ائر پورٹ پر سفارت خانے کے افسران کے ساتھ زاہد منیر بھی تھے۔انھوں نے ہماری خصوصی مدد کی گھر کی تلاش سے لے کر یہاں کے بازاروں اور راستوں کے بارے میں ہماری رہنمائی کی ۔انھوں نےزما لک کا تعر ف کریا اور بتا یا کہ یہی ڈیفینس اور گلبرک ہے اور ہم اس پوش علاقہ پر اکثر دیر تک گھومتے رہتے ہیں ۔
ذمالک میں دیگر شہر کی طرح سڑکوں کےارد گردگاڑیاںپارک ہوتی ہیں جس کے سبب سڑکوں پر زیا دہ بھیڑ دکھا ئی دیتی ہے۔ آنے جانےکے لئےبسیں ویگنیں اورریل گاڑی بھی موجود ہے۔مگر ہم تو ٹیکسی استعمال کرتے ہیںوقت بچا نے کے لیے’ اورٹیکسی ۱۵ بیس روپے میں آسانی سے دستیاب ہوتی ہے۔یہاں کہ د کانداراوربیشتر ٹیکسی ڈرائیورعجیب مزاج رکھتےہیںبھائو کرنے پر آتےہیںتو قیمت بہت زیادہ بتاتے ہیں اور پھر وہی چیز
سستے داموں میں بیچ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے پٹھان بھائی بہت یاد آئے وہ پٹھان جو گلی گلی سامان اٹھائے پھرتے ہیں اور ہزاروں کی قیمت بتا کرسو پچاس میں دے ڈالتے ہیں۔
پاکستانی بہت کم تعداد میں ہیں ۔ زیادہ طالب علم دینی تعلیم کے لئے آئے ہوئےہیںلیکن یونیورسٹیوں میںنمایاں پوزیشن حاصل کر تے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے دو پاکستانی طلبہ نے
پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔ سفارت خانے کا پاکستان انٹر نیثنل سکول ہر حوالے سے ایک ممتاز ادارہ بن چکاہےدیگرممالک میں موجود پاکستانی سکولوں میں سے اسے نمبر ون قرار دیاجاتا ہے پرنسپل ایک بہت ہی نفیس شخصیت احمد شاہ بخاری ہیںجن کا تعلق پشا ور سے ہے ۔انگر یز ی کے استا د میں امتیا ز احمد تا ج نما یا ں ہیں ۔جو لا ہو ر سے تعلق رکھتے ہیں۔
بحثیت استا د عا لمی سطح پر پہچانےجاتے ہیں ۔ افسا نے بھی لکھتے ہیں ان دنوںناول لکھنے میں مصرو ف ہیں۔ حافظ منیر احمد کا تعلق بھیرہ کی عظیم در سگا ہ سے ہے ان کا ایم فل اور پی ایچ ڈی کا مقالہ یہا ں کے بڑ ے پبلشر شا ئع کر رہے ہیں۔ حا فظ منیر کے ارد گرد طلبہ کا ہجو م رہتا ہے ۔ امجد عز یز کا تعلق جہلم سے ہے جنہو ں نے حال ہی میں مو لا نہ رو می کی
مصنوی کے حو لے سے ایم فل کا مقا لہ لکھ کر ڈگر ی حاصل کی ہے ۔ سفا رت خا نے میں سا را عملہ بے حد محنتی اور محب وطن دکھا ئی دیا۔۲۳ ما رچ کے پروگرام میں سا رے پا کستا نیو ں نے شرکت کی تھی ۔ سفیر عا رف ایوب صاحب الوداع ہو نے وا لے ہیں وہ کسی دوسر ے ملک میں تعینا ت ہو ئے ہیں ۔ایچ او سی عبدلجبا ر میمن انسا ن دو ست آفیسرہیں ’ ہم نے سبھی پا کستا نیو ں سےان کےبارے میں اچھے کلما ت سنے ہیں اور ان سے مل کر احسا س ہو ا کہ ایسے ہی افسرا ن سفا رت خا نوں میں تعینا ت ہو نے چا ہیں جو حقیقی معنو ں میں پا کستا نیوں کے لیے مد گا ر ثا بت ہو ں ۔ ان کے سا تھ ایک اچھی ٹیم مو جو د ہےکرنل قیصرعباس ’ڈاکٹر نجیب احمد’ احمد نسیم و ڑائچ یہ سبھی قو نسلر اپنے اپنے شعبو ں میں وطن عزیز کی بہتر ین خد مت میں مصرو ف ہیں .
بضا ہر دیکھنے میں قا ہرہ لا ہو ر سے زیا دہ مختلف نہیں
( خصوصا رش دھو یں اور صفا ئی کے انتظا ما ت کے حو الے سے ) یہا ں ہو ٹلو ں پرویسا ہی رش ہے لیکن آپ کو ہو ٹلوں پر ہر میز پر حقہ دکھا ئی دے گا جسے یہا ں شیشہ کہا جا تا ہے۔ شا م کو قہواہ اور شیشہ پینے وا لو ں کا ایک ہجو م ہو تا ہے ۔ مہنگا ئی زیا دہ ہے ۔ آٹا پا کستا ن میں ۲۰ کلو تین چا ر سو میں مل جا تا ہے یہا ں ہم نے ۲۵ کلو کا تھیلا تقر یبا ۱۰۰ رو پے (مصر ی )میں منگو ایا ہے جو پا کسانی ۱۲۰۰ رو پے بنتے ہیں ۔بہت سی معلو ما ت اور مشاہدا ت انشاء اللہ آپ تک پہنچتی رہیں گی ۔ فی الوقت اجا زت ۔ پا کستا ن کی ہوائوں اور لا ہو ر کی فضا ئو ں کو سلا م ۔۔۔۔۔۔۔۔